Sunday, September 25, 2011

.....ایک تنہا نظم


تنہائی کے جنگل میں  
ٹھہرے ہوئے اک پل میں
جب درد پگھلتا ہے 
احساس کی شاخوں پر
مدّت سے تھما پانی
حولے سے نکلتا  ہے
دل چیر کے پربت کا
پتھر سے ابلتا ہے
راہوں میں پھسلتا ہے
گرتا ہےسنبھلتا  ہے
پھر نیل  کی چادر پر 
کچھ دور یونہی چل کر
سو جاتا ہے پانی میں 
دریا کی روانی میں
کچھ نقش ابھرتے  ہیں
صدیوں کے نشاں پل میں
بنتے ہیں بکھرتے ہیں
ہر روز یہ ہوتا ہے 
.....تنہائی کے جنگل میں
  عامر ریاض   

No comments:

Post a Comment